۴ آذر ۱۴۰۳ |۲۲ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 24, 2024
News ID: 375784
30 دسمبر 2021 - 16:29
شهید سلیمانی

حوزہ/ شہید سلیمانی ،سردار سلیمانی سے زیادہ مؤثر ہیں اس بات اقرار بہت اسلامی اور غیر اسلامی دانشوروں نے بھی کیا ہے کہ جو اثر شہید قاسم سلیمانی نے دنیا میں جھوڑا وہ سردار سلیمانی سے کہی زیادہ ہے 

تحریر: محمد جواد حبیب

حوزہ نیوز ایجنسیکائنات کی صفحہ ہستی پر جب کوئی قوم یا گروہ ظلم اور سرکشی پر اتر آتی ہے اور وہ مخلوقات الهی کے درمیان سے امن و امان، سکون و چین کو چهین کے انکو قتل عام کرنے لگتا ہے معاشرے میں بد امنی اور فسادات برپا کرنے لگتا ہے اورعدل وانصاف کو مٹاتے ہوئے قانون خداوندی کے خلاف علم بغاوت بلندکرنے لگتا ہے اس وقت انسانی معاشرہ ظالموں اور طغیانگروں کے ناپاک اثر سے تباہ وبرباد جاتا ہے ہر جگہ افرا تفری کا ماحول پیدا ہوجاتا ہے تو ایسی حالت میں جنگ جائز ہی نہیں؛ بلکہ فرض ہوجاتی ہے، اس وقت انسانیت کی سب سے بڑی خدمت یہی ہوتی ہے کہ ان ظالم بهیڑیوں کے خون سے صفحہ ہستی کے سینے کو سرخ کردیا جائے اور ان مفسدوں کے شر سے اللہ کے مظلوم وبے کس بندوں کو نجات دلائی جائے، جو شیطان کے پیرو بن کر انسانوں پر اخلاقی، روحانی اور مادی تباہی کی مصیبتیں نازل کرتے ہیں، وہ لوگ حقیقت میں انسان نہیں؛ بلکہ انسانوں کی شکل وصورت میں درندے اوریہی لوگ انسانیت کے حقیقی دشمن ہوتے ہیں، ان لوگوں نے اس زمین پر اتنی درندگی اور بربریت کی ہے اور اتنے بے گناہوں کا خون بهایاہے کہ اگر اس کے مقابلہ میں پوری کائنات کی درندے جانور کو جمع کیا جائے وہ بهی شرماے، جہاں دہشت گردی، طغیانی اور فسادات ستمگروں کی جانب سے آئے دن بڑه رہی ہو اس وقت ہر سچے، انسانیت کے ہمدرد وغمخوار کا اولین فرض ہے کہ ایسے لوگوں کے خلاف تلوار اٹهائے اور اس وقت تک آرام نہ کرے، جب تک کہ خدا کی مخلوق کو ان درندوں سے نجات نہ مل جائے اسلام نے اسی کو جہاد فی سبیل للہ کہا ہے اور جہاد خدا کا ایک قطعی و محکم فریضہ ہے۔
بیسویں صدی ہجری کے سب سے بڑا سرکش اور ظالم داعش جیسی غیر انسانی تنظیم جو ریاستہائے متحدہ کے مجرم رہنماؤں کے اعتراف کے مطابق ان کی تخلیق کردہ تهی ، نے عراق اور شام میں اپنا بدنماچہرہ دکهایا اور بہت سے بے گناہ و مظلوم لوگ کے خون سے اپنے ہاتهوں کو رنگین کیا اور اسکی درندگی اور غیرانسانی کاموں سے پوری دنیا کے مسلمان اور غیر مسلمان واقف ہیں اسں نے اس خطے میں سامراجی طاقتوں، ان کے علاقائی اتحادیوں اور صیہونیت کی مالی اور میڈیا اعانت سے کوئی جرم باقی نہیں چهوڑا،داعش سرزمین عراق اور شام کے بے دفاع لوگوں کی جانوں ، اور عزتوں پر بے دردی سے حملہ کرتے ہوئے تیزی سے آگے بڑه رہی تهی اور ان سرزمینوں میں مستقل آبادکاری اور مستقل تسلط کے بارے میں سوچ رہی تهی، ہم واضح طور پر دیکه سکتے ہیں کہ اس وقت تمام دعوے دار میدان چهوڑ گئے تهے اور ایک طویل عرصے تک یہ واحد اسلامی ایران تها جس نے رہبر معظم کی بصیرت ، تدبیر اور ذہانت سے اپنے عظیم افسران کو خطے کے بے دفاع عوام کے درمیان سلامتی اور امن کی بحالی کے لئے میدان جنگ میں بهیجااس کے بعد مدافعین حرم کے نام سے ایک مبارک تنظیم تشکیل پائی جس کی بنیاد ایران کے شجاع مجاہدین تهےاور آخر کار اسلام کا ایک عظیم کمانڈر شہید قاسم سلمانی جو داعش کی وجود سے خطے کو پاک کرنے کے لئے پرعزم تهے ، انہوں نے اپنی ثابت قدمی اور بے لوث قربانیوں سے داعش کی حکومت کو ختم کرکے اس خطے میں امن و امان کو بحال کیا ،انہوں نے جہاں بهی جنگ کی وہاں کے لوگوں کی سلامتی اور امن کے قیام کے لیے کی نیز ان کی موجودہ اور فطری زندگی کو ان تک بحال کرنے کے لئے جنگ کی۔اس جرم میں امریکہ نے شہید قاسم سلیمانی جوسپاہ پاسداران انقلاب اسلامی ایران (Islamic Revolutionary Guard Corps) کے سابق کمانڈر تهے اور انکے ساتهی حشد شعبی عراق کے نائب رئیس ابو مہدی المہندس کے ہمراہ ۳ جنوری ۲۰۲۰ کو بغداد ایرپورٹ پر ایک ڈرون حملہ کرکے شہید کر دیا تها ۔
آج پوری دنیا میں انکی شہادت کا سالگراہ منایا جارہا ہےشہید قاسم سلیمانی ایک مخلص مومن ، ذہین اور ہوشیار مجاہداور آپ مکتب تشیع کا بہترین پیروکار تهے آپ نے دین اسلام کی حفاظت کے لئے اپنی جان وقف کی اور اسی راہ میں شہادت پربهی فائز ہوئے ۔

مختصر سوانح حیات :
قاسم سلیمانی بن حسن ۱۱ مارچ ۱۹۵۷ ء میں ایران کے صوبہ کرمان کے شہر رابر کے مضافات میں سلیمانی قبیلے میں پیدا ہوئے۔ ۱۸ سال کی عمر میں محکمہ آب رسانی میں ملازمت شروع کی۔ ان کے بهائی سہراب سلیمانی کے بقول، جنرل قاسم سلیمانی، ایران میں اسلامی انقلاب کے دوران کرمان میں ہونے والے مظاہروں اور احتجاجات کرانے والوں میں سے تهے۔انہوں نے ایران عراق جنگ کے دوران شادی کی۔ ان کے ۶ بچے تهے جن میں سے ایک کا انتقال ان کی زندگی میں ہو گیا۔ ان کی اولاد میں تین بیٹیاں نرجس، فاطمہ، زینب اور دو بیٹے حسین اور رضا ہیں۔
انہوں نے ایران عراق جنگ ختم ہونے کے بعد اپنی پڑهائی جاری رکهی اور ۱۳۸۴ ش میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی ۔[۵] وہ اہل مطالعہ تهے۔ قاسم سلیمانی سنہ ۱۹۹۸ ء کو ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کی طرف سے سپاہ پاسداران انقلاب کے قدس برگیڈ کے سربراہ منصوب ہوئے۔سپاہ قدس کو سنہ ۱۹۹۰ ء میں ایران سے باہر کاروائیوں کی غرض سے تشکیل دیا گیا۔ اس کے پہلے کمانڈر جنرل احمد وحیدی تهے۔ ان کے بعد جنرل قاسم سلیمانی اس کے دوسرے کمانڈر بنے۔ ان کی شہادت کے بعد اسماعیل قاآنی کو اس کا کمانڈر بنایا گیا۔

شہید کی خصوصیات:
اسلامی روایات میں آیا ہے کہ شہید کی سات خصوصیات ہیں :۱۔ شہید کے خون کا پہلا قطرہ جب زمین پر گر جاتا ہے تو اسے بخش دیا جاتا ہے ۔۲۔ شہید کا سر حورالعین کی گود میں ہوتا ہے ۔۳۔ شہید جنتی لباس زیب تن کریں گ ے۔۴۔ شہید کو دنیا کی بہترین خوشبوؤں سے معطر کیے جائیں گ ے۔۵۔ شہید بہشت میں اپنے مقام کا نظارہ کریں گے ۔۶۔ شہید کو پوری بہشت کی سیر و تفریح کی اجازت دی جائے گی ۔۷۔ شہید کے سامنے سے پردے ہٹا دیئے جائیں گے اور شہید خدا کی زیارت سے مشرف ہوں گے۔
یہاں اس بات کا ذکر کرنا ضروری ہے کہ در حقیقت اس سردار سرفراز کی شہادت کا اثر ہے، دشمن کا خیال تها کہ وہ سردار سلیمانی کو شہید کر کے اور اپنے مقاصد کو حاصل کرے گا جبکہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ شہید سلیمانی، سردار سلیمانی سے زیادہ مؤثر ہیں اس بات اقرار بہت اسلامی اور غیر اسلامی دانشوروں نے بهی کیا ہے کہ جو اثر شہید قاسم سلیمانی نے دنیا میں جهوڑا وہ سردار سلیمانی سے کہی زیادہ ہے شہید قاسم سلیمانی خود بهی مشتاق شہادت تهے شاید وہ اس اثر کو خود درک کرچکے ہوں انہوں نے بہت سے مقامات پر لوگوں سے دعاکی درخواست کی کہ وہ انکے لئے دعا کریں تاکہ شهادت پر فائز ہوں ۔شہادت! زندگی کی انتہا نہیں بلکہ زندگی کے آغاز کا نام ہے۔بہت سارے زندہ لوگ مر گئے ہیں جبکہ خدا کی راہ میں مارے جانے والے زندہ ہیں اس لئے علامہ اقبال فلسفہ شہادت کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
شہادت ہے مطلوب و مقصود ِمومن
نہ مال غنیمت نہ کشور کُشائی
دشمن شہادت کے راز سے بے خبر ہے، اس کے اجداد نے ۶۱ ه میں سید الشہداءامام حسین علیہ السلام کو سرزمین کربلا میں شہید کیا، ان کا خیال تها کہ انہوں نے حسین ؑ کا کام تمام کردیا ہےلیکن انهیں یہ نہیں معلوم تها کہ خدا کے نور کو بجهایا نہیں جا سکتا، آج اس تاریخ کے قریب ۱۴۰۰ سال بعد بهی کائنات کے گنبد سے حسینؑ کا نام گونجتا ہے اور اربعین مارچ ان کا ایک معجزہ بنا ہوا ہے، سید الشہداءامام حسینؑ کے پیروکار بهی ایسے ہی ہیں، سردار سلیمانی کی شہادت کے بعد عالمی سطح پر مزاحمت کی لہر اٹهی ہے جو دن بدن بڑهتی جارہی ہے، یہ خدا کا قانون ہے، ارشاد ہوتا ہے: ’’ یرِیدُونَ لِیطْفِؤُا نُورَ الله بِأَفْواهِهِمْ وَاللهُ مُتِمُّ نُورِهِ وَلَوْ کرِهَ الْکافِرُونَ ‘‘آخر میں اس نکتہ کی طرف اشارہ کرتے چلیں کہ شہید سلیمانی محض فوجی اور جنگ کے میدان میں ایک نمونۂ عمل نہیں تهےبلکہ وہ ملک کے مختلف حصوں کی انتظامیہ کے تمام کارکنوں اور اہل وطن خصوصاً اس سرزمین کے نوجوانوں کے لئے اخلاقی، فکری، معرفتی، روحانی میدان میں جہادی انتظامیہ کا ایک نمایاں نمونہ ٔ عمل ہیں۔
آئندہ ان کے غیر معمولی اقدامات کے سلسلے میں تحقیق کی جانا چاہئے، کتابیں لکهی جانی چاہیے اور بین الاقوامی کانفرانسیں منعقد کی جانی چاہیے نیز ان کے سلسلہ میں مختلف علمی، تجزیاتی، تعلیمی کاموں کے ساته ساته عمدہ ثقافتی اور فنکارانہ مصنوعات بهی تخلیق کی جانا چاہیے۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .